Home / Tag Archives: محسن نقوی

Tag Archives: محسن نقوی

اِک موجہءصہبائے جُنوں تیز بہت ہے​

اِک موجہءصہبائے جُنوں تیز بہت ہے​ اِک سانس کا شیشہ ہے کہ لبریز بہت ہے​ ​ کُچھ دِل کا لہو پی کے بھی فصلیں ہُوئیں شاداب​ کُچھ یوں بھی زمیں گاؤں کی زرخیز بہت ہے ​ پلکوں پہ چراغوں کو سنبھالے ہوئے رکھنا​ اِس ہِجر کے موسم کی ہوا تیز بہت ہے​ ​ بولے تو سہی ، جھوٹ ہی بولے وہ بَلا سے​ ظالم کا لب و لہجہ دل آویز بہت ہے​ ​ کیا اُس کے خدوخال کُھلیں اپنی غزل …

Read More »

صحرا جو پُکاریں بھی تو سُن کر نہیں آتے (محسن نقوی)

صحرا جو پُکاریں بھی تو سُن کر نہیں آتے اب اہلِ جُنوں شہر سے باہر نہیں آتے وہ کال پڑا ہے تجارت گاہِ دل میں دستاریں تو میسر ہیں مگر سَر نہیں آتے وہ لوگ ہی قدموں سے زمیں چھین رہے ہیں جو لوگ میرے قد کے بھی برابر نہیں آتے اِک تم کہ تمہارے لیے میں بھی ؛ میری جان بھی اِک میں کہ مجھے تم بھی میسر نہیں آتے اِس شان سے لوٹے ہیں گنوا کر دل و …

Read More »

اک دیا دل میں جلانا بھی ، بجھا بھی دینا (محسن نقوی)

اک دیا دل میں جلانا بھی ، بجھا بھی دینا یاد کرنا بھی اُسے روز ، بھلا بھی دینا کیا کہوں یہ میری چاھت ھے ، کہ نفرت اُس کی؟ نام لکھنا بھی میرا ، لکھ کے مٹا بھی دینا پھر نہ ملنے کو بچھڑتا تو ھُوں ، تجھ سے لیکن مُڑ کے دیکھوں تو ، پلٹنے کی دعا بھی دینا خط بھی لکھنا اُسے، مایوس بھی رھنا اُس سے جرم کرنا بھی مگر ، خود کو سزا بھی دینا …

Read More »

میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے (محسن نقوی)

میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے جب وہ کھلتے گُلاب جیسا تھا اُس کی پلکوں سے نیند چھنتی تھی اُس کا لہجہ شراب جیسا تھا اُس کی زلفوں سے بھیگتی تھی گھٹا اُس کا رخ ماہتاب جیسا تھا لوگ پڑھتے تھے خدوخال اس کے وہ ادب کی کتاب جیسا تھا بولتا تھا زباں خوشبو کی لوگ سُنتے تھے دھڑکنوں میں اُسے میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے ساری آنکھیں تھیں آئینے اُس کے سارے چہروں میں …

Read More »

نا سماعتوں میں تپش گھُلے نا نظر کو وقفِ عذاب کر(محسن نقوی)

نا سماعتوں میں تپش گھُلے نا نظر کو وقفِ عذاب کر جو سنائی دے اسے چپ سیکھا جو دیکھائی دےاسے خواب کر ابھی منتشر نا ہو اجنبی نا وصال رت کے کرم جتا جو تیری تلاش میں گم ہوئے کبھی اُن دنوں کا حساب کر میرے صبر کوئی اجر کیا میری دوپہر پر یہ ابر کیوں؟ مجھے اوڑھنے دے اذیتیں میری عادتیں نا خراب کر کہیں آبلوں کے بھنور بجیں کہیں دھوپ روپ بدن سجیں کبھی دل کو تھل کا …

Read More »

بچھڑ کے مجھ سے کبھی تونے یہ بھی سوچا ہے (محسن نقوی)

بچھڑ کے مجھ سے کبھی تونے یہ بھی سوچا ہے کہ ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ہے یہ ختم وصل کا لمحہ ہے ، رائگاں نہ سمجھ کہ اس کے بعد وہی دوریوں کا صحرا ہے کچھ اور دیر نہ جھڑنا اداسیوں کے شجر کسے خبر کہ ترے سائے میں کون بیٹھا ہے یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اس کو وہ روٹھ کر بھی مجھے مسکرا کے ملتا ہے میں کس طرح تجھے دیکھوں ، نظر جھجکتی ہے …

Read More »

ترکِ محبت کر بیٹھے ہم، ضبط محبت اور بھی ہے(محسن نقوی)

ترکِ محبت کر بیٹھے ہم، ضبط محبت اور بھی ہے ایک قیامت بیت چکی ہے، ایک قیامت اور بھی ہے ہم نے اُسی کے درد سے اپنے سانس کا رشتہ جوڑ لیا ورنہ شہر میں زندہ رہنے کی اِک صورت اور بھی ہے ڈوبتا سوُرج دیکھ کے خوش ہو رہنا کس کو راس آیا دن کا دکھ سہہ جانے والو، رات کی وحشت اور بھی ہے صرف رتوں کے ساتھ بدلتے رہنے پر موقوف نہیں اُس میں بچوں جیسی ضِد …

Read More »

کوئی نئی چوٹ پِھر سے کھاؤ! اُداس لوگو(محسن نقوی)

کوئی نئی چوٹ پِھر سے کھاؤ! اُداس لوگو کہا تھا کِس نے، کہ مسکراؤ! اُداس لوگو گُزر رہی ہیں گلی سے، پھر ماتمی ہوائیں کِواڑ کھولو ، دئیے بُجھاؤ! اُداس لوگو جو رات مقتل میں بال کھولے اُتر رہی تھی وہ رات کیسی رہی ، سناؤ! اُداس لوگو کہاں تلک، بام و در چراغاں کیے رکھو گے بِچھڑنے والوں کو، بھول جاؤ! اُداس لوگو اُجاڑ جنگل ، ڈری فضا، ہانپتی ہوائیں یہیں کہیں بستیاں بساؤ! اُداس لوگو یہ کِس نے …

Read More »