Home / فلکیات / بگ کرنچ (Big Crunch)

بگ کرنچ (Big Crunch)

کائنات کے اختتام کو لے کر دو نظریے خاصے اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ کائنات ہمیشہ پھیلتی جائے گی اور ایک وقت ایسا آئے گا جب سارے ستارے ختم ہو جائیں گے اور نئےستارے بننا بند ہو جائیں گے اور ایک ابدی اندھیرا چھا جائے گا۔
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ کائنات کا پھیلاو ایک خاص وقت میں رک جائے گا اور پھر ہر کہکشاں گریویٹی کی وجہ سے ایک نقطہ کی طرف واپس آئے گی اور کائنات کا سارا مادہ باہم اکھٹا ہو کر ایک نقطے میں سمٹ جائے گا جس کو بگ کرنچ (Big Crunch)کہتے ہیں۔
کائنات کا مقدر اس کے کُل وزن پر مخصر ہے، اگر کائنات کا وزن ایک خاص مقررہ وزن سے زیادہ ہے تو اسے بالآخر سکڑ کر مسمار ہونا ہے، بصورتِ دیگر یہ ہمیشہ باہر کی جانب پھیلتی رہے گی۔

ذیل کا مضمون پال ڈیوئیس کی کتاب ’’آخری تین منٹ‘‘ سے مستعار لیا گیا ہے۔ اس میں پال ڈیوئس نے بہت عمدگی سے بگ کرنچ کا نقشہ کھینچا ہے۔

 

کائناتی سکڑاو کے اولین مراحل کچھ زیادہ دھمکی آمیز نہیں ہوں گے۔ جس طرح اوپر پھینکا گیا گیند بلند ترین مقام پر رکتا ہے اور واپسی کا آغاز کرتا ہے، کائنات بھی اندرون کی طرف گرنے کا آغاز بڑی آہستگی سے کرے گی۔
فرض کریں کہ یہ لمحہ سو ملین سال بعد آتا ہے، ابھی بہت سے ستارے جل رہے ہوں گے اور ہمارے پیش رو اپنی دوربینوں سے کہکشاوں کی حرکت دیکھ سکیں گے۔ وہ دیکھیں گے کہ پہلے ان کے ہٹنے کی رفتار سست ہوتی گئی اور پھر انہوں نے ایک دوسرے کی طرف گرنا شروع کر دیا۔ جو کہکشائیں آج ہم دیکھتے ہیں کوئی چار گنا زیادہ دور ہوں گی۔

کائنات کے مسلسل پھیلاو کے باعث ماہرینِ فلکیات ہماری نسبت دس گنا زیادہ دور تک دیکھ سکیں گے اور حدِ نگاہ نسبتاً زیادہ کہکشاوں کا احاطہ کرے گی۔

کائنات عبور کرنے میں روشنی کو کئی بلین سال لگ جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک سو بلین سال بعد کے ماہرِ فلکیات کو لمبے عرصے تک سکڑاو کا علم نہیں ہو سکے گا۔ وہ دیکھیں گے جو کہکشائیں نسبتاً قریب ہیں ان میں زیادہ تر پیچھے ہٹنے کی بجائے ان کی طرف بڑھ رہی ہیں، لیکن دور دور کی کہکشاوں سے آنے والی روشنی میں تب بھی سرخ تبدل (Red Shift)موجود ہو گی۔ دسیوں بلین سال کے بعد اندر کی طرف سکڑاو باقاعدہ ظاہر ہو گا۔
جو تبدیلی زیادہ آسانی سے شناخت ہو سکے گی وہ پس منظری شعاعوں کے درجہ حرارت میں ہونے والی معمولی سی تبدیلی ہو گی، آپ کو یاد ہو گا یہ پس منظری شعاعیں بگ بینگ کے وقت خارج ہوئی تھی اور اس وقت ان کا درجہ حرارت مطلق صفر سے تین درجے بلند ہے، کائنات پھیلنے سے ان کا درجہ حرارت کم ہوتا ہے۔ سو بلین سال کے بعد یہ درجہ حرارت ایک ڈگری ہو چکا ہو گا۔سکڑاو کے دوران جب کائنات کی کثافت آج کل جتنی ہو جائے گی تو درجہ حرارت دوبارہ مطلق صفر سے تین درجہ بلند ہو جائے گا، اس میں پھر ایک سو ملین سال لگیں گے۔

کائنات راتوں رات مسمار نہیں ہو جائے گی، سکڑاو شروع ہونے کے بعد بھی کئی بلین سال تک ہمارے پیش رو مناسب انداز میں زندگی گزاریں گے۔ سکڑاو آج سے جتنے سال بعد شروع وہ گا اتنے مزید سال گزرنے کے بعد کائنات کا مجسم پھر موجودہ حجم کے برابر ہو جائے گا، لیکن اس کا نقشہ مختلف ہو گا۔ اگر یہ سکڑاو سو بلین سال بعد شروع ہو تو موجودہ حجم تک آتے آتے بلیک ہول بہت زیادہ ہو چکے ہوں گے اور ستارے بہت کم، قابلِ رہائش سیارے آٹے میں نمک کے برابر ہوں گے۔

جب کائنات واپس اپنے موجودہ حجم پر پہنچے گی تو اس کی رفتار کافی بڑھ چکی ہو گی۔ اس وقت ساڑھے تین بلین سال میں اس کا حجم آدھا رہا ہو گا اور یہ شرح سکڑاو بڑھتی جارہی ہو گی۔ اس لمحے کے دس بلین سال کے بعد اصل مسئلے کاآغاز ہو گا جب پس منظری شعاعوں کا درجہ حرارت سنجیدہ صورتِ حال اختیار کر جائے گا، جب درجہ حرارت 300kہو گا تو زمین جیسے سیاروں کے لیے حرارت کے خلاف دفاع کرنا مشکل ہو جائے گا، پہلے برفانی چوٹیاں اور گلیشئیر پگھلیں گے اور پھر سمندر بخارارت بننے لگیں گے۔

چالیس ملین سال بعد پس منظری شعاعوں کا درجہ حرارت زمین کے اوسط درجہ حرارت کے برابر ہو جائے گا۔ زمین جیسے سیارے قابلِ رہائش نہیں رہیں گے۔ سورج کے سرخ دیو(Red Giant)بننے کے باعث زمین اس سے بہت پہلے اس حالت کو پہنچ چکی ہو گی۔ یہاں کے باسیوں کو کوئی قابلِ رہائش سیارہ بھی دستیاب نہیں ہو گا۔ کائنات حرارتی شعاعوں سے بھری ہو گی، خلا کا درجہ حرارت 300kہو چکا ہو گا اور مزید بڑھ رہا ہو گا۔

اگر کسی ماہرِ فلکیات نے کوئی ایسا نظام وضع کر لیا کہ وہ خود پکنے سے بچ گیا تو دیکھے گا کہ کائنات کے سکڑنے کی رفتار بہت زیادہ ہو گئی ہے، اس کا حجم ہر چند ملین سال کے بعد آدھا ہو رہا ہو گا، جو کہکشائیں تب تک بچی ہوں گی نا قابلِ شناخت ہو چکی ہو ں گی کیونکہ وہ باہم مدغم ہونا شروع ہو جائیں گی، تاہم ستاروں کا تصادم اس وقت بھی نایاب واقعہ ہو گا کیونکہ اب بھی خلا کی وسعتیں اتنی تنگ نہیں ہوئی ہوں گی۔
جوں جوں کائنات اپنے آخری مرحلے کی طرف بڑھتی جائے گی اس کی حالت بگ بینگ کے فوراً بعد والی حالت کے زیادہ مماثل ہوتی چلی جائے گی۔ پس منظری کائناتی شعاعیں اتنی گرم ہو جائیں گی کہ رات کو بھی آسمان پھیکے سرخ رنگ کا نظر آئے گا، کائنات ایک بھٹی کی شکل اختیار کر جائے گی۔ اگر کہیں بھی زندگی کی کوئی صورت چھپی ہوئی ہو گی تو وہ ختم ہو جائے گی۔ سیاروں سے ان کے کرہ ہوائی اڑ جائیں گے، آسمانوں کی سرخ رنگت بتدریج پیلی اور پھر سفید ہو جائے گی، کائنات کو نہلاتی حرارتی شعاعیں اتنی گرم ہوں گی کہ خود ستاروں کے وجود کو خطرہ لاحق ہو جائے گا، ان کے اندر حرارت کی پیدائش کا عمل جاری ہے جو کہیں باہر خارج نہیں ہو سکتی اس لیے وہ پھٹ جائیں گے، فضا گرم گیس پلازما سے بھری ہو گی جو ہر لحظہ مزید گرم ہوتی جائے گی۔

جیسے جیسے تبدیلی کی رفتار بڑھتی جائے گی حالات کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا، کائنات میں قابلِ محسوس تبدیلیاں پہلے لاکھوں پھر ہزاورں اور پھر سینکڑوں سالوں میں ہونے لگیں گی، درجہ حرارت پہلے ملین اور پھر بلین درجے تک چلا جائے گا، آج کی فضائے بسیط میں بکھرا ہوا مادہ سکڑ کر چھوٹے حجم کے ٹکڑوں میں بٹ جائے گا، کہکشاوں کا مادہ سکڑ کر چند نوری سال کے علاقے میں سما جائے گا۔

آخری تین منٹ آچکے ہیں۔

درجہ حرارت بتدریج اتنا بڑھ چکا ہو گا کہ ایٹمی نیو کلیئس بھی ٹوٹ چکے ہوں گے، مادہ بنیادی ذروں کے ایک آمیزے کی صورت اختیار کر گیا ہے، بگ بینگ اور ستاروں نے جو بھاری عناصر تشکیل دیے تھے وہ پھر ختم ہو چکے ہیں، اتنے طویل عرصے میں بننے والے عناصر اس سے بھی کم وقت میں ختم ہو گئے جتنا وقت آپ کو یہ تحریر پڑھنے میں لگاہے۔ٹریلین ٹریلین سالوں تک مستحکم رہنے والے ایٹمی نیوکلیئس دوبارہ کبھی نہ جڑسکنے کے لیے ٹوٹ گئے ہیں، سوائے بلیک ہول کے باقی ہر وجود معدوم ہو گیا ہے۔

کائنات کا انہدام جوں جوں تیز ہوتا جا رہا ہے درجہ حرارت بھی ہر دم بڑھتی ہوئی شرح سے نامعلوم بلندیوں کو چھوتا جا رہا ہے۔مادہ اتنا بھنچ چکا ہے کہ پروٹان اور نیوٹران بھی باقی نہیں بچے ، اب صرف کوارکوں Quarksکا ایک ملغوبہ باقی ہے،
انہدام ابھی جاری ہے۔
کائناتی تباہی میں صرف چند مائکرو سیکنڈ باقی ہیں، انتظام مکمل ہو چکا ہے۔ بلیک ہولوں نے باہم مدغم ہونا شروع کر دیاہے، ان کے مرکزوں کی حالت باقی کائنات سے قدرے مختلف ہے۔ یہ اب محض زمان و مکان کے خطے ہیں جو کچھ پہلے انجام کو پہنچ گئے تھے اور اب یہ باقی کائنات کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔
آخری لمحات میں تجاذب ہی واحد غالب قوت ہے جو بڑی بے رحمی سے مادہ اور خلا کو پیس رہی ہے، زمان و مکان کا ضم ہر لحظہ بڑھتا جا رہا ہے، مکان کے بڑے بڑے خطے چھوٹے چھوٹے علاقوں میں تبدیل ہو رہے ہیں، مروجہ نظریے کے مطابق مادے کو اندر کی طرف گرانے والا یہ دھماکہ لاانتہاء طور پر طاقت ور ہے جس نے مادہ کو معدوم کر دیا اور خود زمان و مکان کو بھی بھینچ کر اکائی میں بدل دیا ہے۔

یہ عظیم چرمراہٹ(Big Crunch)صرف مادے کا اختتام نہیں ہے بلکہ یہ ہر چیز کا خاتمہ ہے۔ یہ وقت کا بھی خاتمہ ہے، یہ پوچھنا کہ اس کے بعد کیا ہو گا اتنا ہی بے معنی ہے جتنا کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا۔ کسی بھی ہونے کیلئے اب کوئی آگے نہیں ہے۔ حتی کہ جمود کے لیے بھی زمان نہیں اور خلا کیلئے بھی مکان نہیں ۔
جو کائنات عدم سے بگ بینگ کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی اس بگ کرنچ کے نتیجے میں دوبارہ معدم ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب: آخری تین منٹ
مصنف: پال ڈیوئیس
ترجمہ: ارشد رازی

 

About محمد سلیم

محمد سلیم ایک کمپیوٹر پروگرامر ہیں اور ایک سافٹ وئیر ہاوس چلا رہے ہیں۔ سائنس خصوصا فلکیات پر پڑھنا اور لکھنا ان کا مشغلہ ہے۔ ان کے مضامین یہاں کے علاوہ دیگر کئی ویب سائٹس پر بھی پبلش ہوتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.