Home / فلکیات / بلیک ہول، اسکیپ ولاسٹی اور غلط فہمیاں

بلیک ہول، اسکیپ ولاسٹی اور غلط فہمیاں

آپ، پاپولر سائینس کی کتاب پڑھ لیجئے یا یوٹیوب پر بلیک ہول سرچ کیجئے، دو ایک اعلیٰ درجےکے چینلز کو چھوڑ کے، سبھی لوگ کچھ اس قسم کی تعریف سے سامعین کو مسحور کرتے ہیں:

بلیک ہول ایک ایسی جگہہ ہے جہاں مادہ سُکڑ سُکڑ کے اسقدر کثیف ہوجاتا ہے کہ وہاں سے فرار ممکن نہیں حتیٰ کہ روشنی کو بھی نہیں کیونکہ وہاں سے فرار کے لئے اسکیپ ولاسٹی روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ چاہئے ہوتی ہے۔

بھائی بہنوں شاید زبان و انداز بدل جائے لیکن تقریباً سبھی کا پیغام یہی ہوتا ہے۔ یہی نہیں بڑے بڑے سائینس کو پاپولر کرنے والے حضرات بھی یہی کرتے ہیں اور اگر سچ پوچھیں تو خاکسار نے بھی ماضی میں لوگوں کو اسکیپ ولاسٹی سے بلیک ہول سمجھانے کی کوششیں کی ہیں اور خُدا جھوٹ نہ بُلائے تو یہ کہوں گا کہ اس کوشش میں ہمیشہ مُنہہ کی ہی کھائی ہے۔

بہت عرصہ پہلے میں نے یہ طے کرلیا تھا کہ سائینس کی جو کوئی ایک آدھی بات مُجھے سمجھ آگئی ہے وہ کسی دوسرے کو سمجھانی اُس کی اصل روح میں ہی ہے۔ اس سلسلے میں ریاضی کا استعمال ایسے ہی ضروری ہے جیسے کسی جراح کو سامانِ جراحی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن میری کوشش ہوتی ہے کہ ریاضی کے فارمولہ جات سے مزئین مضامین سے قاری یہ سمجھ جائے کہ کسی تصور کے پیچھے ایک گہری ریاضیات اصولوں کی بساط بچھی ہوئی ہے اگر آپ کسی تصور کے حق میں دی گئی دلیل کے لئے آنے والے ریاضیاتی فارمولا سے یہی سمجھ لیں کہ یہ باتیں کسی نے رات گئے چائے اور سیگرٹ پیتے ہوئے خود سے ایجاد نہیں کیں بلکہ ان کی ایک بُنیادی ریاضیاتی دلیل ہے تو میں سمجھوں گا کہ گویا دُر مُراد پا لیا۔

آج معبدِ فیس بُک میں پوُجے جانے والے اسکیپ ولاسٹی اور بلیک ہول والے بُت کو گرانے کا وقت آن پہنچا ہے۔

اسکیپ ولاسٹی کیا ہے

یہ ایک کلاسیکل فزکس کا تصور ہے جس کا مطلب ہے ایک ایسی رفتار جس پر کوئی چیز زمین یا کسی اور سیارے، ستارے وغیرہ کی گریوٹی سے آزاد ہوجائے اس کا انحصار اُس سیارے، ستارے کے ماس پر تو ہے ہی لیکن اُس فاصلے پر بھی ہے جہاں سے آپ یہ رفتار معلوم کررہے ہیں۔ یہ فاصلہ ہمارے مضمون میں آگے چل کے بہت اہم ہوگا اس لئے اس پر ذرا توجہ دیں اور کوشش کریں کہ اس کی تفہیم صحیح ہوجائے۔ اسکیپ ولاسٹی کا سادہ سا فارمولا یوں ہے

اسکیپ ولاسٹی کا فارمولا ۔۔۔ تصویر ۱

سطح زمین سے اسکیپ ولاسٹی کی قیمیت کوئی گیارہ کلومیٹر فی سیکینڈ ہے یعنی اگر سطح زمین سے کوئی چیز اس رفتار سے نکلے تو یہ پھر زمین پر واپس نہ آئے گی۔ لیکن انٹرنیشنل اسپیس سٹیشن جو زمین سے 408 کلومیٹر اُوپر محو گردش ہے یہاں سے اسکیپ ولاسٹی کوئی 10.9 کلومیٹر فی سیکینڈ بنتی ہے، اب اسپیس سٹیشن خود 7.6 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے محو گردش ہے اگر اسکا کوئی پُرزہ وہاں سے 3.3 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے اس اسپیس سٹیشن کی گردش کی سمت میں نکل جائے تو یہ زمین کی گریوٹی سے آزاد ہوکر پر کبھی واپس نہیں آئے گا، کیونکہ اسپیس سٹیشین کی اپنی رفتار 7.6 میں اب جونہی اس پُرزے کی رفتار 3.3 جمع ہوئے تو 10.9 کلومیٹر سیکنڈ رفتار بنی جو مدار میں اس فاصلے پر زمین کی اسکیپ ولاسٹی کے برابر ہے اسلئے یہ پُرزہ اب نظامِ شمسی میں کہیں گُم ہوجائیگا واپس نہیں آئے گا۔

اہم نقاط و نتائیج

اب یہاں جو سب سے اہم نتیجہ سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ:۔) جس فاصلے پر کوئی جسم مدار میں ہوتا ہے وہاں سے اُس کی اسکیپ ولاسٹی اُس کی مداروی ولاسٹی سے ہمیشہ زیادہ ہوتی ہے یہ ایک منطقی بات اور مُشاہدے سے بھی عیاں ہے مداروی ولاسٹی اور اسکیپ ولاسٹی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ اس ضابطے کے تحت ایک دوسرے سے منسلک ہیں:

Vescape = √2 Vorbital

Vescape = 1.4 * 7.6 = 10.83 ≈ 10.9 Km/s

اب یہاں سے ایک اور متعلقہ لیکن اہم نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ وہ فاصلہ جس پر آپ کسی رفتار سے مدار میں رہ سکتے ہیں اُس فاصلے سے ہمیشہ کم ہوگا جہاں سے آپ اس رفتار کو اسکیپ ولاسٹی میں بدل سکیں۔ اس کا مطلب ہے اسپیس سٹیشن 7.6 کلومیٹر فی سیکنڈ سے مدار میں 408 کلومیٹر کے فاصلے پر مدار میں ہے۔ یعنی اگر اسپیس سٹیشن نے 7.6 کلومیٹر فی سیکینڈ کی رفتار کو اسکیپ ولاسٹی میں بدلنا ہے تو اس کو کم و بیش 1154 کلومیٹر کے فاصلے پر جانا ہوگا۔

لو جی اب ہم اسکیپ ولاسٹی کو سمجھ چُکے ہیں اس لئے اب ہم جنرل اضافیت کی دُکان پے سودا لینے چلتے ہیں۔

شوارڈز شیلڈ ریڈئیس

یہ ایک دور دراز سے دیکھنے والے شاہد کے مطابق وہ فاصلہ ہے جس کے اندر کسی جسم کا ماس ”M“ ایسے سُکیڑ دیا جائے کہ وہاں سے کوئی اطلاع ہم تک نہ پہنچ سکے اس کو سب سے پہلے ایک جرمن فوجی کارل شوارڈز شیلڈ نے جنگِ عظیم اول کے دوران مورچوں میں چاند ماری کرنے کے دوران معلوم کیا تھا اسی لئے ان صاحب کے نامِ گرامی سے یہ مشہور ہے۔ اس کا فارمولا کچھ یوں ہے:

شوارڈز شیلڈ ریڈئیس ۔۔۔ تصویر نمبر ۲

اس کو یار لوگ ایونٹ ہورائیزن بھی کہتے ہیں اور جن کے سر میں ہر اصطلاح کو اُردو میں ترجمہ کرنے کا سودا سوار ہے وہ اس کو رداسِ حوادث بھی کہتے ہیں۔

صاحبو اب اس کی کچھ تعبیر یوں ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں سےآگے اسپیس۔ٹائیم اسقدر زیادہ خمیدہ ہوتے ہیں کہ کسی بھی چیز کے تمام ممکنہ مُستقبل بلیک ہول کے مرکز کی سمت میں ہوتے ہیں کسی چیز کا وہاں سے فرار اس لئے ممکن نہیں کہ اس سے آگے وقت بلیک ہول کے مرکز کی سمت جاتا ہے گویا کہ وہاں سے فرار کا مطلب ہوگا کہ آپ کوماضی میں جانا ہوگا جو علت و معلول (Causality) کو توڑ دیتی ہے۔ اب اگر آپ نے اپنے آفس میں، کھانے کی دعوت پر، سٹرک پر یا کسی مُشاعرے کے وقفے میں بلیک ہول پر بات کرنے والوں کو متاثر کرنا ہے تو دونوں ہاتھ ہلا کر اعتماد سے یہ بات چھوڑ دیں:

بھائی بلیک ہول میں روشنی سمیت کوئی اور چیز اس لئے نہیں پھنستی کہ اُس کی گریوٹی بے پناہ زیادہ ہے بلکہ اس لئے کہ ان کے لئے بلیک ہول سے باہر صرف ماضی ہے ان کا مُستقبل بلیک ہول کے اندر ہے۔

یقین کریں لوگ محفل میں بوٹیاں چھوڑ کے آپ کی بات سُننے لگیں گے۔ لیکن یہ کہنے سے پہلے آپ اس پر کچھ پڑھ ضرور لیں۔

روشنی کا مدار

یاد رکھیں بلیک ہول کے ارد گرد آپ بہ آسانی ایک مدار میں حرکت کرسکتے ہیں بشرطیکہ آپ ایک محفوظ فاصلے پر ہوں۔

روشنی ہمیشہ ہی کائنات کی تیزترین ممکنہ رفتار ”c“پر سفر کرتی ہے، اب بلیک ہول کے ارد گرد ایونٹ ہورائیزن سے پہلے ایک مُقام ایسا آتا ہے جس کے اندر رفتار ”c“ سے کم پر کوئی مُستحکم مدار ممکن نہیں اس کو سائینسدان فوٹان سفئیر کہتے ہیں اس کا آسان سا فارمولا یوں ہے

فوٹان سفئیر ۔۔ تصویر نمبر ۳

یعنی ایونٹ ھورائیزن سے ڈیڑھ گُنا (1.5) فاصلے تک مدار میں رہنے کے لئے آپ کو روشنی کی رفتار پانا ہوگی جو ممکن نہیں اس لئے یہ یاد رکھیں جب آپ بلیک ہول کی تصویر دیکھتے ہیں تو اصل میں آپ اُس کے ارد گرد فوٹان سفئیر کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

بلیک ہول کے ایونٹ ہورائیزن سے اس فاصلے تک کوئی بھی فوٹان اگر ہوگا تو وہ بلیک ہول کے گرد مدارمیں ہوگا اور یوں ہم کہہ سکتے ہیں یہ فوٹان اب شامِ ابد تک اسی بے معنی گردشی چکر میں ہی لگا رہے گا۔

اب ہم ایک کام کرتے ہیں تصویر نمبر۔۲ سے رڈئیس کی قیمت کو تصویر نمبر۔۱ میں اگر ڈالیں تو آپ کو جو جواب ملے گا وہ یہ ہوگا

تصویر نمبر۔۳

یعنی کہ اسکیپ ولاسٹی کائنات کی ممکنہ حد رفتار ہے جس کو یار لوگ روشنی کی رفتار بھی کہتے ہیں۔

یہ ایک مُکمل اتفاق ہے اور کچھ نہیں ہم نے نظریہء اضافیت سے معلوم کردہ نتیجے (تصویر نمبر ۲) کو نیوٹن بھائی صاحب کے نظریات سے آنے والے فارمولے (تصویر نمبر ۱) میں جا لگایا ہے جس نے ہمیں وہ نتیجہ دیا جس کو ٹی۔وی، چوباروں، ریڈیو، بازروں، سیڑہیوں، افطار کی محفلوں، یوٹیوب کی ویڈیو اور انٹرویوز میں بلیک ہول کی بات کرتے ہوئے لوگ بتاتے ہیں کہ ”جی وہاں سے فرار کے لئے اسکیپ ولاسٹی روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ چاہئے“

یعنی کہ اسکیپ ولاسٹی کائنات کی ممکنہ حد رفتار ہے جس کو یار لوگ روشنی کی رفتار بھی کہتے ہیں۔

یہ ایک مُکمل اتفاق ہے اور کچھ نہیں ہم نے نظریہء اضافیت سے معلوم کردہ نتیجے (تصویر نمبر ۲) کو نیوٹن بھائی صاحب کے نظریات سے آنے والے فارمولے (تصویر نمبر ۱) میں جا لگایا ہے جس نے ہمیں وہ نتیجہ دیا جس کو ٹی۔وی، چوباروں، ریڈیو، بازروں، سیڑہیوں، افطار کی محفلوں، یوٹیوب کی ویڈیو اور انٹرویوز میں بلیک ہول کی بات کرتے ہوئے لوگ بتاتے ہیں کہ ”جی وہاں سے فرار کے لئے اسکیپ ولاسٹی روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ چاہئے“

ورلڈ لائین

ورلڈ لائین کا موضوع بذاتِ خود ایک الگ سے مضمون چاہتا ہے جس پر پھر کبھی لکھوں گا لیکن فی الوقت یوں سمجھیں کہ اسپیس۔ٹائیم میں کسی جسم کی حرکت کے مُنفرد پاتھ کو ایک گراف میں ظاہر کیا جاسکتا ہے، اسطرح کہ افقی سمت میں اسپیس ہو اور عمودی طرف وقت جیسے یہ ذیل میں دی گئی تصویر میں دکھایا گیا ہے:

ورلڈ لائین ۔۔ تصویر نمبر ۴

اب یہاں بنفشی رنگ (پرپل) کی لائین میری آج صبح صوفے پر بیٹھے رہنے کی ورلڈ لائین ہے جو یہ بتا رہی ہے کہ میں صرف وقت میں سفر کرتے ہوئے مُستقبل میں جارہا ہوں اور کیونکہ اپنے کمرے میں ساکن ہوں اس لئے یہاں کے مطابق وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔

نیلی لائین یہ دکھا رہی ہے کہ میں اپنی کار میں بیٹھ کے تیزرفتاری سے موٹر وے پر جارہا ہوں اور نیلی لائین میں خم یہ بتا رہا ہے کہ میں کسی ساکن شاہد کے مطابق وقت کو نسبتاً سُست روی سے جاتا محسوس کررہا ہوں (وقت کے سُست ہونے کو سمجھانے کی خاطر یہ خم بہت زیادہ کرکے دکھایا گیا ہے)۔ اور سُرخ لائین کائنات میں رفتار کی حد کو ظاہر کرتی ہے اب یہ دیکھئے کہ جوں جوں ہم سُرخ لائین کی طرف آتے جاتے ہیں ساکن شاہد کے مطابق ہمارا وقت سُست تر ہوتا جاتا ہے اور کیونکہ ہم کائنات میں رفتار کی حد کو عبور نہیں کرسکتے اس لئے ہمارا سارا مُستقبل اس سُرخ لائین سے اوپر ہی کہیں واقع ہے۔

اب اس کو تھوڑا اور بہتر ایسے کرتے ہیں کہ اس میں آپ کا ماضی بھی آجائے تو جو گراف بنے گا وہ یوں ہوگا، اس میں سُرخ لائین کو آپ کراس نہیں کرسکتے کہ اُس پار سارا ماضی ہے ۔ اب یہ تصویر ہے دو ڈائمینشن میں اس میں جب ہم اسپیس کی باقی ماندہ ڈائمینشنز ڈالیں گے تو اس کو گھُمانا پڑے گا جس سے یہ ایک کَون نُما ڈُگڈگی سی بن جائیگی اس کو یار لوگ فزکس میں لائیٹ کون کہتے ہیں۔

لائیٹ کون کا تصور ۔۔۔ تصویر نمبر ۵

یہ محدود نظریہ اضافیت کے تصورات کو ظاہر کرتی ہے لیکن عمومی نظریہء اضافیت میں بھی کسی بڑے ماس کے ارد گرد وقت سُست رو ہوجاتا ہے تو یہی گراف ہم وہاں بھی استعمال کرسکتے ہیں لیکن اس میں اسپیس۔ٹائیم کے خم کی وجہ سے مُستقبل ایک گُوناں اس جسم کی طرف جُھک سا جاتا ہے۔ اب ہم اس قابل ہوگئے ہیں کہ بلیک ہول کی درست تفہیم حاصل کرسکیں۔

درست تفہیم کیا ہے پھر

اسکیپ ولاسٹی کے تصور کا کوئی سروکار جنرل اضافیت سے سرے سے ہے ہی نہیں اور نیوٹن بھائی صاحب کی وضع کردہ گریوٹیشن کے ضوابط جہاں وقت کی نبضیں سُست ہو رہی ہوں وہاں پر ان کا اطلاق ہی نہیں ہوتا۔ تو پہلی بات تو یہ کہ آپ ایسے تصورات بلیک ہول کے ضمن میں استعمال ہی کیوں کرتے ہیں ؟

ابھی ہم نے فوٹان سفئیر کو سمجھا ہے، لیکن اس سے قبل اسکیپ ولاسٹی کے سلسلے میں ہم یہ طے کر چُکے ہیں کہ:

وہ فاصلہ جس پر آپ کسی رفتار پر ایک مدار میں رہ سکتے ہیں اُس فاصلے سے ہمیشہ کم ہوگا جہاں سے آپ اس رفتار کو اسکیپ ولاسٹی میں بدل سکیں

تو اس اصول کے مُطابق کیونکہ فوٹان سفئیر میں فوٹان روشنی کی ہی رفتار یعنی ”c“ سے سفر کرتے ہوئے محو گردش ہیں تو اسی رفتار یعنی کہ ”c“ کو اسکیپ ولاسٹی بنانے والا فاصلہ اور زیادہ ہوگا کم نہیں ہوگا، لیکن اسکیپ ولاسٹی ایونٹ ہورائیزن پر ”c“ ہوتی ہے جو فوٹان سفئیر کے اندر ہے یعنی مدار کے اندر ہے۔ اس قسم کے ابہام بنتے ہی تب ہیں جب ہم اپنے علم کی بُنیاد ہی غلط تصورارت پر جا رکھیں۔

یہ سارے لاینحل مسائیل پیدا ہی تب ہوتے ہیں جب آپ کُلیتاً اتفاقی نتیجے (تصویر نمبر ۳) کو زور زور سے ہاتھ ہلا ہلا کے اسکیپ ولاسٹی بتانے پر تُلے رہیں جبکہ وہ اسکیپ ولاسٹی والا مسئلہ ہی نہیں۔

تو اس اصول کے مُطابق کیونکہ فوٹان سفئیر میں فوٹان روشنی کی ہی رفتار یعنی ”c“ سے سفر کرتے ہوئے محو گردش ہیں تو اسی رفتار یعنی کہ ”c“ کو اسکیپ ولاسٹی بنانے والا فاصلہ اور زیادہ ہوگا کم نہیں ہوگا، لیکن اسکیپ ولاسٹی ایونٹ ہورائیزن پر ”c“ ہوتی ہے جو فوٹان سفئیر کے اندر ہے یعنی مدار کے اندر ہے۔ اس قسم کے ابہام بنتے ہی تب ہیں جب ہم اپنے علم کی بُنیاد ہی غلط تصورارت پر جا رکھیں۔

یہ سارے لاینحل مسائیل پیدا ہی تب ہوتے ہیں جب آپ کُلیتاً اتفاقی نتیجے (تصویر نمبر ۳) کو زور زور سے ہاتھ ہلا ہلا کے اسکیپ ولاسٹی بتانے پر تُلے رہیں جبکہ وہ اسکیپ ولاسٹی والا مسئلہ ہی نہیں۔

حرف آخر

بلیک ہول کے اندر تمام کا تمام مادہ اسپیس۔ٹائیم کو خمیدہ کرنے اور رکھنے کے لئے ضروری اینرجی کی صورت میں خرچ ہورہا ہوتا ہے اس کے اندر جانے والی تمام چیزوں وہ چاہے روشنی ہو، آلو بُخارہ ہو یا کوئی ستارہ کے تمام ممکنہ مُستقبل بلیک ہول کے اندر ہی موجود ہوتے ہیں بلکہ اُس کے مرکز کی سمت میں ہوتے ہیں یہاں سے باہر آنا اس لئے ممکن نہیں کہ اس کے باہر آپ کا کوئی ممکنہ مُستقبل ہے ہی نہیں صرف ماضی ہے اور ماضی میں جانا فزکس میں علت و معلول (کاز ایلٹی) کو توڑ پھوڑ دے گا اس لئے یہ ممکن نہیں۔

ہم نے لائیٹ کون کا تصور سمجھا اب اس بات کو اس تصویر سے سمجھیں نیچے ایک ایسے ذرے کی لائیٹ کونز دکھائی گئی ہیں جو بھائی صاحب بلیک کی طرف گامزن ہیں، بڑا سا سیلینڈر وقت میں ایونٹ ھورائیزن کے گراف کو ظاہر کر رہا ہے

ایک ذرہ بلیک ہول میں جاتے ہوئے ۔۔۔ تصویر نمبر ۶

ایونٹ ھورائیزن کو پار کرنے سے قبل آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اُس کے ممکنہ مُستقبل کا کچھ حصہ بلیک ہول سے باہر ہے یعنی اگر یہ کچھ کرلے تو ممکن ہے یہ کائینات میں کہیں اور نکل جائے لیکن ایک بات دیکھئے یہ کَون ایک طرح سے بلیک ہول کی طرف جھکی سی ہے اب ایونٹ ھورائیزن پر آپ دیکھیں اس کا کوئی مُستقبل ایسا نہیں جو بلیک ہول سے باہر ہو، اس لئے یہ بھائی صاحب اب کائینات سے گُم ہوگئے ہیں۔

بلیک ہول کے تناظر میں اسکیپ ولاسٹی کی بات کرنا ایک بے معنی اور لایعنی تصور ہے اس کو سائینسدان عوام کو سمجھانے کے لئے اکثر استعمال کر تے ہیں۔ سمجھانے کی کوئی صورت بن پائے اس لئے میں خود کبھی کبھار مجبور ہوکر سامعین کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ کہہ دیتا ہوں کہ بلیک ہول وہ جگہہ ہے جہاں سے فرار کرنے کے لئے آپ کو اسکیپ ولاسٹی روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ چاہئے لیکن اب شاید آپ سمجھ گئے ہوں کہ اسکیپ ولاسٹی کا بلیک ہول سے کوئی تعلق نہیں یہ سب کچھ علت و معلول کا کیا دھرا ہے۔

یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ روشنی کی رفتار میں ”روشنی“ کی اہمیت نہیں ہے بلکہ ”رفتار“ کی اہمیت ہے جس کو انفرمیشن کی رفتار کی ممکنہ حد کہنا زیادہ بہتر ہے۔ سائینس کو سائینس سے سمجھنے کی کوشش کیجئے کیونکہ سائینس ہی تو وہ شانے ہیں کہ جس پر عروسِ علم و ایجاد کے دراز گیسو بکھرے ہوئے ہیں۔

About جرار جعفری

تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

Leave a Reply

Your email address will not be published.