Home / فلکیات / آخر چاند زمین کے ہی گرد کیوں گردش کرتا ھے؟

آخر چاند زمین کے ہی گرد کیوں گردش کرتا ھے؟

آخر چاند زمین کے ہی گرد کیوں گردش کرتا ھے؟

اکثر یہ ہوتا ھے کہ مُشکل سوال وہ ہوتے ہیں جو ظاہراً  بہت آسان لگتے ہیں، جیسے رات کو آسمان تاریک کیوں ہوتا ھے؟ روشنی کی رفتار  آخر ایک کائیناتی حد رفتار کیوں ھے ؟ وغیرہ “چاند زمین کے ہی گرد کیوں گردش کرتا ھے؟” یہ سوال بھی اسی قبیلے کا ایک فرد ہے۔ اس سوال سے ہمیں فزکس میں مشہور تین اجسام کے تجاذبی عمل دخل کے مسئلے کو سمجھنے میں بھی مدد دے گا۔ اس کے علاوہ ھم ایک نسبتاً غیر معروف سائینسدان سے بھی آگاہی حاصل کریں گے جنہوں نے اس مظہر کو سمجھنے کے لئے بڑا کام کیا۔

حکیم نیوٹن نے سترہوں صدی عیسوی میں اس راز کو پا لیا کہ چاند ایک سیب کی طرح بُنیادی طور پر زمین کی طرف گر رہا ہے لیکن اپنی اُفقی سمت میں رفتار کے سبب یہ زمین کے گرد مدار میں ھے نہ صرف نیوٹن نے یہ نظریہ پیش کیا بلکہ اس کی تفصیل کے بیان کے لئے کیلکولس جیسی ریاضی کی نئی شاخ بھی ایجاد کی گریوٹی اور اس کے علاوہ اپنے بیشمار کاموں کی وجہ سے نیوٹن کو تاریخ انسانی کے عظیم ترین سائینسدان ہونے کا اعزاز حاصل ھے۔

نیوٹن کے گریوٹی کے قانون کے مطابق ہر جسم دوسرے جسم پر ایک فورس لگاتا ھے، یعنی چاند پر زمین اور سورج دونوں اپنی فورس لگا رہے ہیں۔ کوئی جسم کس دوسرے جسم کے گرد گردش کرے گا اس کا مطالعہ فزکس کی ایک شاخ “مداروی حرکیات” (Orbital mechanics) میں کیا جاتا ھے۔

چاند پر لگنے والی فورسز:

اس بات کی بہتر تفہیم کے لئے ضروری ھے کہ ھم پہلے چاند پر سورج اور زمین کی فورسز کا حساب لگائیں۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ چاند زمین کے گرد محو گردش ہے تو یقیناً زمین کی فورس اس پر سورج کی نسبت زیادہ ہوگی۔ یہ جاننے کے باوجود ہم ذرا اپنے دماغی مسلز کو فعال بنانے کے لئے پہلے یہ مشقِ ستم کرلیتے ہیں۔

 پہلے چاند پر زمین کی فورس اس میں زمین اور چاند کی کمیت اور چاند سے زمین کا فاصلہ میں نے گوگل کے ذریعہ وکی پیڈیا سے ڈھونڈا ھےیہ کام  آپ بھی  کرسکتے ہیں. اس میں “R” سے مراد زمین اور چاند کا فاصلہ ھے

 

چاند پر زمین کی فورس

اب اتمام حجت کے لئے سورج کی چاند پر فورس نکال لیتے ہیں جو یوں ھے:

سورج کی فورس چاند پر.

سورج کی فورس چاند پر زمین کی فورس سے دوگنی زیادہ ھے، یہ تو ھم اُمید ہی نہیں کررہے تھے، آپ یہ حساب کتاب بار بار چک کرلیجئے تھوڑے بہت نمبر ادھر اُدھر ہوجائیں گے لیکن اصل جواب آپ کو یہی ملے گا کہ چاند پر زمین کی فورس سورج کی نسبت آدھی ھے۔ اور مزے کی بات یہ ھے کہ آپ اپنے جسم پر زمین اور سورج کی فورس نکالیں تو آپ کو پھر ایک دفعہ وادئی حیرت میں بسیرا کرنا ہوگا کہ آپ پر سورج کی فورس زمین کی نسبت کچھ زیادہ ہی ہے۔

تو پھر اگر یہ سچ ھے تو چاند زمین کے گرد ہی کیوں محو گردش ھے،سورج کے ارد گرد کیوں نہیں؟

کیا نیوٹن کا گریوٹی والا قانون غلط ھے؟ یہ وہ نقطہ ھے جس پر بعض سائینسی شعبدہ بازوں نے گریوٹی نہ ہونے اور نیوٹن کے غلط ہونے کے فتاوی بھی صادر کردئے تھے ان کی باقیات آج بھی کبھی کبھار یہ نتیجہ سامنے لے آتے ہیں۔ اس پر مجھے برٹیڈ رسل کا ایک جملہ یاد آگیا “سائینس ہمیشہ تو درست نہیں ہوتی، لیکن یہ غلط بھی کم ہی ہوتی ھے”۔ دیکھیں اس تناظر میں نہ نیوٹن غلط ھے اور نہ ہی گریوٹی بوریا بستر باندھ کے گھر لوٹ گئی ھے۔ بات یہ ہے کہ عوام الناس اکثر میڑک سے آگے تک کی فزکس کا نہ تو مطالعہ کرتے ہیں اور نہ ہی تفہیم رکھتے ہیں۔

گریوٹی پر نیوٹن کے بعد بہت سے لوگوں نے بہت کام کیا ھے جن میں سے “کارل فریڈرک گاؤس”، “جوزف لوئی لاگرانج”، “البرٹ آئین شٹائین” اور ایک فرانسیسی “ایدوارد روش” کے نام سرفہرست ہیں۔ بلکہ ایڈوانس فزکس میں جو گریوٹی کی تعبیر کے لئے مُساوات استعمال ہوتی ہیں وہ “کارل فریڈرک گاؤس” کے وضح کردہ “گاؤس کا قانون تجاذب” سے ماخوذ ہیں جو دراصل  نیوٹین کے گریوٹی کے قانون کا ہی ایک  بہتر اور زیادہ ریاضیاتی اظہار ہے۔

کرہء روش:

ذرا غور کیجئے یہ اُردو کا لفظ “روِش” نہیں جس کو فیض صاحب نے اس شعر میں کیا خوب باندھا ھے

ع                    روِش روِش ہے وہی اِنتظار کا موسم

                      نہیں ہے کوئی بھی موسم، بہار کا موسم

یہ ایک فرانسیسی نام ھے “رَوش” جو “ایدوارد روش” (Édouard Roche) کے نام کی وجہ سے  “کرہء روش” (Roche Sphere) کہلاتا ھے.

ایدوارد روش 1883-1820

یہ بھائی صاحب اُنیسویں صدی کےایک فرانسیسی ریاضی دان اور ماہرِ فلکیات تھے ان کی فزکس میں اہم ترین خدمات میں تین بہت مشہور ہیں۔  پہلی تو یہ کہ ان صاحب نے سب سے پہلے یہ تصور پیش کیا کہ زحل سیارے کے گرد رنگز ماضی میں کسی ایسے چاند کی شکست و ریخت سے وجود میں آئے جو زحل کے اتنا قریب آگیا کہ زحل  سیارے کی گریوٹی کی شدت نےاس چاند کے چیتھڑے اُڑا دئیے جو بعد میں چھوٹے چھوٹے ذرات کی صورت میں اس کے گرد محو گردش ہوگئے اور یوں وہ رنگز بن گئے جس کی وجہ سے کسی بھی فلکیاتی پارٹی پر آپ تشریف لے جائیں تو عموماً لوگ سب سے پہلے جو آسمان پر دیکھنے کا کہیں گے وہ زحل اور اس کے رنگز ہی ہوں گے۔

روش بھائی صاحب کا یہ تصور دینے کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے ریاضیاتی طور پر یہ معلوم کیا کہ کسی سیارے یا ستارے کے گرد ایک ایسا مقام ہوتا ھے جس کے پار وہ گریٹی کے سبب جُڑے اجسام کو توڑ دے گا اس کو فزکس میں “حد روش” (Roche Limit) کہتے ہیں. یہ حد ہی وہ وجہ ھے کہ شہابیے اکثر سیارے پر آتے آتے ٹکڑوں میں بٹ جاتے ہیں جس کی بہترین مثال ایسٹروائیڈ “شوماکر لیوی-9” (Shoemaker–Levy 9) تھا جو جب مُشتری سے 1994 میں ٹکرایا تو ساری دُنیا نے یہ منظر دیکھا جس کی وڈیوز تک آپ کو یوٹویب پر مل جائیں گی۔

شوماکر-لیوی 1994 میں مُشتری پر گرنے سے قبل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا.

روش صاحب کی فزکس کے میدان میں تیسری اہم ترین خدمت ھمارے موضوع سے متعلق ھے۔ آپ نے ریاضی کے استعمال سے یہ حساب لگایا کہ کسی بھی جسم کے گرد ایک ایسا غیرمرئی کرہ ھوتا ھے جس میں اُس کی گریوٹی غالب ہوتی ہے چاہے کسی اور دور دراز جسم کی گریوٹی کی فورس زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے لئے جو فارمولا آپ نے وضح کیا وہ خاصہ پیچیدہ ھے جس میں مدار کی بیضویت “Eccenetricity” کو بھی شامل کیا جاتا ھے لیکن اختصار کی خاطر ھم یہ فرض کرلیتے ہیں کہ زمین کے گرد چاند کا مدار مکمل دائیروی ھے تو اس صورت میں یہ فارمولا یوں ہو گا:

روش کرے کا نصف قطر

اب زمین کے لئے روش کرے کا نصف قطر اس فارمولے (جس میں “a” سے مُراد زمین سے سورج تک کا فاصلہ،”m” زمین کا ماس اور “M” سورج کا ماس ھے) سے اگر زمین کے روش کرے کا نصف قطر نکالیں تویہ  تقریباً

 “1,500,000” کلو میٹر بنتا ھے اور چاند کا زمین سے فاصلہ بنتا ھے “384,400” کلو میٹر یعنی چاند زمین کے روش کرے کے خاصے اندر ھے اس لئے چاند بُنیادی طور پر زمین کے گرد گردش کرتا ھے اور سورج کے گرد یہ زمین کے ساتھ ساتھ گردش کرتا ھے۔

یہ ہی وجہ ھے کہ چاند باوجود سورج کی فورس زیادہ ہونے کے گردش زمین کے گرد کرتا ھے۔ اس مظہر قدرت کی چند ایک اور بھی وضاحتیں ہیں۔ اُن میں سے ایک تو یہ گریوٹی دراصل اسراع ھے اور چاند کا زمین کی گریوٹی کی وجہ سے بننے والا اسراع سورج کی وجہ سے بننے والے اسراع سے کہیں زیادہ ھے ہم اس کو فورس ویکٹرز کے مجموعے سے بھی سمجھ سکتے ہیں لیکن وہ بہت زیادہ ریاضی ہوجائے گا۔

 حرف آخر

 یہ تمام وضاحتیں میں نے کلاسیکل فزکس کے حوالے سے دی ہیں کیونکہ یہ مظہر کلاسیکل فزکس اور جدید فزکس کے تصورات سے یکساں سمجھا جاسکتا ھے. مزید “روش کرہ” کو عموماً “روش/ھل کرہ” بھی کہا جاتا ھے کیونکہ اس پر امریکی سائینسدان “جارج ھل” نے بھی بہت کام کیا تھا لیکن ایک عرصہ پہلے میں نے اس کو سب سے پہلے “روش کرہ” کے نام سے پڑھا تھا اور اس لئے میں اس کو عموماً روش کرہ ہی کہتا ہوں۔

 مذید مطالعہ کے لئے آپ درج ذیل لنکس کو دیکھ سکتے ہیں

https://en.wikipedia.org/wiki/Hill_sphere

https://tinyurl.com/y7nqogwj

About جرار جعفری

تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

Leave a Reply

Your email address will not be published.